تحریر: مولانا صادق الوعد قم المقدسہ
حوزہ نیوز ایجنسی| ایک دور میں پشاور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں مختلف تہذیبوں کا سنگم ہوا کرتا تھا؛ مذہبی رواداری، اخوت اور بھائی چارگی میں اپنی مثال آپ تھا۔ تقریباً سو سال پہلے کی بات ہے؛ ایک شیعہ عالم دین ایران سے پشاور پہنچے۔ اُن کا نام سلطان الواعظین شیرازی تھا۔ اہل سنت کے جید علماء نے جناب سلطان الواعظین کو علمی بحث کی دعوت دی۔ یہ علمی مذاکرہ میرزا یعقوب علی خان قزلباش کے گھر منعقد ہوا کرتا تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سامعین کی اکثریت اہل سنت فرقے سے تعلق رکھتی تھی، مقامی اخباروں میں اس مناظرے کا پورا متن شائع کیا جاتا تھا، جسے بعد میں کتاب کی شکل میں بھی شائع کیا گیا، جس کا نام شبہائے پشاور رکھا گیا۔
بد قسمتی سے اس امن و بھائی چارگی کی بنیاد پر گامزن معاشرے کو نہیں معلوم کس کی نظر لگ گئی؟ اب شیعوں کی قتل گاه اور خون بہانے والا شہر بن چکا ہے۔ پارا چنار کے مؤمنین کے ساتھ حالیہ دلخراش واقعہ اس کی روشن مثال ہے۔ اگرچہ شیعوں پر ظلم اور بربریت کا نہ یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری، کیونکہ شیعہ مکتب کے نظریات اور تعلیمات ہی کچھ اس طرح ہیں کہ ازلی دشمن کو پسند نہیں۔ کیونکہ ان کے مفادات سے متصادم ہیں۔
عام طور پر ہمارے مذہب کو شیعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں شیعہ ہمارے مذہب کا نام نہیں ہے، بلکہ شیعہ لفظ چند اسرار و رموز کا مجموعہ ہے جس میں شیعوں کے وظیفے بیان ہو چکے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں خدا کی طرف سے ملنے والا انعام بیان ہوا ہے یا یوں کہیں لفظ شیعہ میں گہوارہ سے قبر تک کے شیعوں کے ایسے پروگرام موجود ہیں جو ہمارے مذہب کی بقاء کا ضامن ہیں۔
شیعہ لفظ چار حروف(_ش_ی_ع_ه ) پر مشتمل ہے ہر حرف ایک خاص مطلب کی طرف اشارہ ہے۔
1۔ شہید و شہادت
ایثار و شہادت اسلامی ثقافت میں دو بنیادی چیزیں ہیں جو اسلام اور اسلامی نظام کی بقاء کا سبب بنتی ہیں، شیعہ اسی بنیاد پر کسی بھی طوفان کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت کرتے ہیں، شہادت تنہا شیعہ مذہب کا ایک حصہ ہے بلکہ شیعہ مکتب میں شہادت، ایثار و فداکاری ایک ثقافت ہے۔ یہ ثقافت کبھی ختم نہیں ہوسکتی، کیونکہ ہماری تعلیمات و تاریخی حقائق کی بنیاد اسی پر ہے۔ شیعہ ہر سال محرم الحرام کو نئے جذبے سے مناتے ہیں۔ حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السّلام کے اس فرمان (جو کوئی بھی ہمارے راستے میں اپنا خون بہانے کے لیے تیار ہے اور خدا سے ملاقات کے خواہاں وه ہمارے ساتھ آجائے) کو چالیس دنوں تک سر لوحہ اور مجالس کی زینت قرار دیتے ہیں تاکہ اسے کوئی فراموش نہ کرے۔ شیعہ محرم میں صرف آنسو نہیں بہاتے، صرف سینہ کوبی نہیں کرتے، صرف نذر ونیاز نہیں بانٹتے بلکہ امام حسین (ع) سے تجدید عہد کرتے ہیں کہ شیعہ کا ہر شخص تا ابد شہادت کی ثقافت کو ہرگز فراموش نہیں ہونے دے گا، بلکہ نسل نو تک منتقل کرتا رہے گا۔
مذہب شیعہ کی ثقافت میں اگر شہادت نہ ہوتی تو پارا چنار کے مؤمنین باوجود اس کے کہ ہر طرف سے سختیاں اور مشکلات کا سامنا تھا، خواتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو رہے تھے، تین مہینے سے زائد عرصہ تک صبر استقامت کا مظاہرہ نہ کرتے۔
ایک ایسی ملت جسے کسی قسم کی شکست دینا نا ممکن ہو تو یقیناً آخری حربہ قتل ہی ہے۔
پارا چنار کی فضا ان دنوں افسردہ و غمگین ہے۔ ایسے ایام میں جن دنوں شیعہ، مادر مقاومت بنت رسول اللہ (ص) کا سوگ منا رہے تھے۔ اپنے غم اور دکھ کو بھلا کر پیغمبر اکرم (ص) کی اکلوتی بیٹی کے مصائب میں آنکھیں اشکبار اور سینے میں دکھ لیکر سوگوار تھے۔ دشمن اسلام یعنی امریکہ اور اسرائیل کے آلہ کار تکفیریوں نے اپنی سیاہ کارستانی میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کردیا۔ گیارہ بچے اور سولہ خواتین سمیت لگ بھگ سو سے زائد بے گناہ بہترین انسانوں اور معمار وطن کو خاک وخون میں نہلا کر ایک اور کربلا رقم کردی۔ مگر شیعہ قوم نے ماتھے پر نہ آثار شکن لائے نہ چہرے پر غم کے آثار،کیونکہ شہادت ہمارا ورثہ اور عالی ہدف کی خاطر صبر ہمارا پیشہ ہے ۔اسی لئے جاپانی نژاد امریکی شہری، محقق اور مورخ، فرانسس فوکو یاما نے یروشلم میں منعقدہ ایک کانفرنس میں کہا: شیعہ ایک ایسا پرندہ ہے جس کے دو پر ہیں، ایک پر کا رنگ سبز یعنی مہدویت کا عقیدہ ہے، جبکہ دوسرے پرچم کا رنگ سرخ جو کربلا اور عاشق شہادت کا تصور ہے، جب تک یہ دو پر باقی ہیں شیعوں پر فتح پانا ممکن نہیں۔
2۔ یاری ونصرت
شیعہ مذہب کی بنیاد ہی ایثار و فداکاری پر رکھی گئی ہے۔ مذہبی اور تاریخی کتابوں میں سینکڑوں ایسی مثالیں ہیں جو کسی اور مذہب و مکتب میں نہیں ملتیں۔ نمونے کے طور پر ملاحظہ کیجئے:
عقل اور عرف کی منطق یہ ہے کہ "الدار ثم الجار" یعنی پہلے گھر پھر ہمسایہ، جیسا کہ فارسی کی کہاوت ہے" چراغی که به خانه رو است به مسجد حرام است"
کسی بھی معاشرے میں رہنے والے انسان خود اور اپنے متعلقہ افراد کو کسی بھی چیز کے حوالے سے دوسروں پر مقدم کرتے ہیں، لیکن دنیا میں ایک ایسا گھرانہ بھی پایا جاتا ہے، جس کی فداکاری، جوان مردی کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ہے۔ اس گھرانے کے بڑے سے لیکر چھوٹے بچے تین دنوں تک خود بھوکے ره کر فقیروں کو نوازتے ہیں۔ دنیا میں ڈھونڈنے سے بھی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی اس جیسی منطق نہیں ملتی کہ فرمایا:" الجار ثم الدار" (پہلے پڑوسی، پھر گھر) حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا محب صرف جذبات کے اظہار اور چند قطرے آنسو بہانے سے نہیں بنتا، بلکہ اس کے لئے ان کے طرزِ زندگی کو اپنانا ہوگا۔ حضرت زہراء (ع) کے یار و یاوری کی کیا مثال دوں: دنیا میں کونسی ایسی دلہن ہے جو اپنی شادی کی پہلی رات عروسی کے لباس سائل اور ضرورت مند کو ہدیہ کرے، وہ بھی ایک ایسے زمانے میں جہاں ممکن ہے ایک لباس عروس تیار کرنے میں کئی کئی مہینے لگ جائیں ۔
آج ہر شیعہ کا دل لبنان کے مظلوم شیعوں کے لئے جتنا دھڑکتا ہے اتنا ہی فلسطین اور غزہ کے اہل سنت مسلمانوں کے لئے دھڑکتا ہے۔ عوامی سطح پر جتنی مالی امداد لبنان کے شیعوں کو ہدیہ کرتے ہیں اتنا ہی فلسطینوں کو کرتے ہیں، کیونکہ یاری، نصرت، فداکاری، جوان مردی شیعہ مذہب کی ثقافت کا حصہ ہے۔
لیکن کیا آپ نے کبھی سنا ہے جب شیعوں پر کوئی مصیبت آ جائے تو اہل سنت نے عوامی سطح پر شیعوں کو کوئی افرادی یا مالی امداد بھیجی ہوں؟
3۔ علم و شعور
عام طور پر جب بھی علم کا لفظ سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو فوراً پڑھا لکھا ہونا ذہن میں آتا ہے۔ یہاں ہماری مراد یہ نہیں ہے، بلکہ علم وشعور کا مطلب، حق اور باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت ہے دوسرے لفظوں میں بصیرت مراد ہے۔
ممکن ہے ایک شخص پڑھا لکھا نہ ہو، کسی مکتب یا درسگاہ نہ گیا ہو، لیکن باشعور ہو، اسی طرح یہ بھی ممکن ہے ایک آدمی پڑھا لکھا ہو، لیکن شعور بالکل نہ رکھتا ہو، یہی وجہ ہے اسلام جہالت سے زیادہ جاہلیت سے سخت نفرت کرتا ہے۔ جہالت اور جاہلیت کے فرق کو اس مثال سے سمجھ لیجئے: جہالت بیماری کی مانند ہے اور جاہلیت وبا جیسی ہے، وبا جب پھیل جاتی ہے تو پورا شہر یا ایک ملک کو نیست ونابود کر دیتی ہے، جبکہ بیماری سے فرد واحد کو تکلیف ہوتی ہے۔
تاریخی لحاظ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مکتب تشیع، مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصبات سے بالاتر سوچ رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلک ایک نہ ہونے کے باوجود بھی مکتب تشیع فلسطین اور برما وغیرہ کے مظلوم لوگوں کی حمایت کو اپنا فرض سمجھتا ہے، صرف مظلومیت اور کلمہ گو کی حیثیت سے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے اہل سنت کا خاص طبقہ نہ صرف مذہبی حصار سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتا، بلکہ بعض اوقات اغیار اور عالمی قوتیں ان سے امید لگائے نظر آتی ہیں۔
اہل سنت کے ایک بڑے طبقے کے یہاں اتحاد مسلمین، مشترکہ دشمن کے خلاف قیام، اسلام ہوگا تو مسلک ومذہب ہوگا جیسے الفاظ سے اگر آگاہ نہیں تو اہمیت بھی نہیں رکھتے۔ اس کے بر خلاف تاریخ کے اوراق گرداننے سے شیعوں کی وسعت قلبی، فراخ دلی اور شعور کی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔
ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی قدیمی، بابری مسجد کو جب مسمار کرنے کی کوشش کی گئی تو سب مسلمانوں نے ملکر آواز بلند کی۔ یہ بات سب پر عیاں تھی کہ اس مسجد کے نمازی خاص مکتبہ فکر کے ہی ہوتے تھے، لیکن شیعوں کے شعور کو سلام ہو کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ مسجد تو ہمارے مکتبہ فکر کی نہیں۔ مسجد کسی خاص فرقے کی نہیں ہوتی ہے اور نہ عبادتگاہ کسی کی ہوتی ہے۔ پوری امت مسلمہ کے باہمی احتجاج کے نتیجے میں ہندوستان جیسے شدت پسند ملک میں عبادت کے ساتھ عبادت گاہ پر بھی حملے رک گئے۔
آج مسجد اقصٰی کو دیکھ لیجئے، اس عظیم مسجد کے دفاع کے لئے پوری دنیا میں شیعہ مکتب فکر کے لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مسجد اقصٰی میں تو شیعہ جماعت ہی نہیں ہوتی، فلسطین میں تو آٹے میں نمک کے برابر بھی شیعہ نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں بسنے والے اہل تشیع رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں۔ دنیا بھر میں ریلیاں نکالتے ہیں۔ مسجد اقصٰی اور فلسطین کے مسئلے کو ساری دنیا میں اہل تشیع نے زندہ رکھا ہوا ہے۔
حزب اللہ لبنان کو ہی لیجئے، آج اگر ایران اور حزب اللہ کو جن جن مشکلات کا سامنا ہے، سید حسن نصر اللہ شہید جیسے بیش بہا انسان اگر قربان ہوئے ہیں تو فلسطین اور مسجد اقصٰی کی آزادی کی خاطر ہوئے ہیں۔ آج لبنان میں کسی بھی مذہبی عبادت گاہ یا مسلک کے ماننے والے حزب اللہ سے خطرہ کے بجائے احساسِ تحفظ کر رہے ہیں، اس کے بر خلاف پاکستان اور افغانستان جیسے ملکوں میں شیعوں پر آئے روز حملے ہوتے ہیں، کفر وشرک کے فتوے لگائے جاتے ہیں، لیکن اہل تشیع نے کبھی کسی تکفیری، دیو بندی اور وہابی کے قتل کا فتویٰ دینا تو دور کی بات، ایسا سوچا تک نہیں۔ ہمیں ماننا پڑے گا، بلکہ یہ اعتراف کرنا پڑے گا، اور یہ کریڈیٹ اہل تشیع کو دینا پڑے گا کہ ملکی سلامتی، رواداری، اخوت، اخلاق اور شعور کی جنگ اہل تشیع جیت چکے ہیں۔ کربلا سے لیکر پاکستان تک اہل تشیع نے خون سے فتح پانے کا عظیم ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ اس میں ہم سب کیلئے یہ پیغام ہے کہ ملک کو بچانے کیلئے ہمیں اہل تشیع جیسا شعور چاہیے۔ ہم اہل سنت کے دردمند طبقے سے یہی تقاضہ کرتے ہیں: آئیں! تکفیری عفریت کو شکست دینے ہمارے قدم سے قدم ملائیں۔ اس ناسور اور دشمن پسند کرداروں کی جڑوں کو خشک کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہمارے خون بہائے جانے پر سب سے زیادہ خوشحالی ہمارے مشترکہ دشمن کو ہوتی ہے۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم رہیں یا نہ رہیں یہ دین اور یہ ملک باقی رہے۔
4۔ ہدایت
اگرچہ بشریت کی ہدایت کے لئے اللہ نے انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے، لیکن اس کے ساتھ انسان کو خدا نے آزاد خلق کیا ہے، جس کی وجہ سے صراط مستقیم سے پھسلنے کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے، جسے راہ راست کی طرف لانے کے لئے خدا نے ظاہری حجت یعنی آسمانی کتابیں اور انبیاء علیہم السّلام بھیجے ہیں۔
ہدایت کا وظیفہ شیعہ مذہب میں اس حد تک اہم ہے، جب بھی آئمہ علیہم السّلام کی صفات بیان ہوتی ہیں تو یھدون، ھادی، مھدی، ھدی جیسے الفاظ سے ہوتی ہیں، یہاں تک کہ ان ہادیان کے لئے عمر اور سال بھی ملاحظہ نہیں کیا جاتا ہے، تبھی تو 7 سال کا بچہ ہدایت کے منصب پر فائز ہوگیا ۔
امام حسن عسکری (ع) فکری انحراف میں گرفتار شخص کی دست گیری کے بارے میں فرماتے ہیں: یتیم وه نہیں، جس نے اپنا باپ کھو دیا ہو، بلکہ حقیقی یتیم وه ہے، جس کی امام معصوم تک رسائی نہ ہو ، اگر کوئی شخص ان ایتام آل محمد کو فکری گرفتاری سے نکالے قیامت کے دن اسے ہم اہل بیت(ع) کی صحبت نصیب ہوگی۔ مذکورہ مطالب اس مسئلے کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ لوگوں کی ہدایت کرنا شیعہ مذہب کی ثقافت کا اہم ستون ہے۔ لفظ شیعہ کے آخر میں ہا اسی کی طرف اشارہ ہے۔ اس مسئلے سے متعلق اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ ہدایت کس چیز کی یا کس حوالے سے ہونی چاہیے؟
غور کیجیئے! ہمارا معاشرہ اس وقت کئی طرح کے انحرافات کا شکار ہے:
پہلا اخلاقی انحراف ہے، یعنی لوگ تمام اصول دین، یعنی خدا کو مانتے ہیں، نبی کو مانتے ہیں، اسی طرح فروع دین، یعنی نماز روزہ جیسے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں، لیکن خدا اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی نہیں مانتے، کبھی کبھی جھوٹ بولنے لگتے ہیں، گالم گلوچ شروع کر دیتے ہیں، اسی طرح نامحرم کو دیکھتے ہیں، ان موارد کو اخلاقی انحراف کہتے ہیں۔ دنیا میں جاری قتل وغارت، ڈکیتی اور زنا وغیرہ کا مرتکب ہوتے ہیں، یکدم سے شروع نہیں کرتے، بلکہ ایک معمولی مسکراہٹ یا ایک میسج سے ہوتا ہوا سوشل میڈیا پر انٹری اور چیٹ سے گزرتا ہوا آخری مرحلے تک پہنچتے ہیں، جہاں نہیں پہنچنا چاہیے تھا۔
دوسرا معاشرتی انحراف ہے؛ ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ ہمیشہ برا سلوک روا رکھتے ہیں، اسی طرح پڑوسی آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام نہیں کرتے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک نہیں ہوتے، حق الناس پائمال کرتے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں سوچتے جتنا اس معاشرے میں مجھے جینے کا حق ہے اتنا ہی دوسرے کو بھی ہے۔ ہر چیز کو خودی کے دائرے میں پرکھنے لگتے ہیں۔
تیسرا فکری اور عقیدتی انحراف ہے، کیونکہ یہ اہم اور تفصیل طلب موضوع ہے، لہٰذا اس کے بارے میں ایک الگ مقالہ لکھنے کی ضرورت ہے۔
مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں شیعہ صرف ہمارے مسلک کا نام نہیں، بلکہ لفظ شیعہ میں موجود ہر حرف ایک خاص مطلب کی طرف اشارہ ہے، اس لیے شیعہ وه ہے جو جب تک اس دنیا میں زندہ ہے اپنی آخری سانس تک علم و شعور حاصل کرے، علم وشعور کی منزل طے کرنے کے بعد پھر بشریت کی ہدایت و رہبری کے فرائض انجام دے، جب ان دستور پر عمل ہو جائے تو خدائے رحمٰن انعام کے طور پر شہادت کی موت نصیب فرماتا ہے، پھر عاش سعیدا ومات سعیدا،کا مکمل مصداق ٹھہرتا ہے۔